لالچی ہمیشہ محروم رہتا ہے
«قَالَ النَّبِيُّ صل الله علیه و آله و سلم الْحَرِيصُ مَحْرُومٌ وَ هُوَ مَعَ حِرْمَانِهِ مَذْمُومٌ فِي أَيِّ شَيْءٍ كَانَ»{1}
” طماع (زیادہ طمع کرنے والا) اور حرص و آرزو میں مبتلا رہتا ہے اور اپنے دل میں بلند و بالا آرزوئیں رکھتا ہے کہ میں یہ بنوں گا، وہ بنوں گا۔ اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ محروم رہے گا اور اسے وہ مقام نہیں ملے گا۔ اللہ نے جو تقدیر مقرر کی ہے وہی ہوگی۔ اس لیے وہ خود کو بے خود کر کے یہاں وہاں، فلاکت اور زحمت میں نہ ڈالے اور اپنے اہل وعیال کو پریشان نہ کرے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ صبح سویرے اٹھ کر گھر سے نکل جاتے ہیں اور رات گئے تک گھر نہیں آتے۔ گھر آتے بھی ہیں تو دو گھنٹے سوتے ہیں اور پھر دوبارہ اٹھ کر کام پر چلے جاتے ہیں۔ کیا ان کی بیوی اور بچوں کا کوئی حق نہیں ہے؟ ان بچوں کی تربیت کیا ہوگی؟ کیا ان کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے؟ کیا ان کی بیوی اور بچوں کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے؟
ایک ایسی خاتون جو اپنے خاندان کو چھوڑ کر آپ کے آنے کا انتظار کر رہی ہے، لیکن آپ آتے ہیں تو ایک طرف سے کام کے کپڑے اتارتے ہیں، ایک لقمہ کھانا کھاتے ہیں اور سر رکھ کر سو جاتے ہیں اور پھر صبح اٹھ کر چلے جاتے ہیں؛ کیا یہ زندگی ہے؟ بعد میں کہتے ہیں کہ اگر کام نہ کریں تو چلے گا نہیں۔
یہ طریقہ اہل بیت علیہم السلام کے طریقہ کے خلاف ہے اور ان احادیث کے خلاف ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اہل بیت علیہم السلام کا طریقہ کیا ہے؟ اور اہل بیت علیہم السلام ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «الْحَرِيصُ مَحْرُومٌ وَ هُوَ مَعَ حِرْمَانِهِ مَذْمُومٌ» “حریص اور لالچی محروم ہے اور اپنی محرومی کے ساتھ ساتھ مذموم بھی ہے۔” ایک طرف تو اسے محرومی نصیب ہوتی ہے اور دوسری طرف خدا اور خدا کے دوستوں کی مذمت اس کے شامل حال ہوتی ہے۔ «فِي أَيِّ شَيْءٍ كَانَ»؛ ” وہ چاہے کسی بھی مرتبے میں ہو،” یعنی اگر وہ حرص (لالچ) و طمع کو اختیار کرے اور اس چیز پر راضی اور تسلیم نہ ہو جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے؛ خاص طور پر اگر خدانخواستہ وہ حرام کاموں میں ہاتھ ڈالے، ناشائستہ کاموں میں ہاتھ ڈالے، صرف اس لیے کہ ایک دو پیسے کما سکے۔
پیامبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم آگے فرماتے ہیں:
وَ كَيْفَ لَا يَكُونُ مَحْرُوماً وَ قَدْ فَرَّ مِنْ وَثَاقِ اللَّهِ تَعَالَى عزوجل لالچی کیوں نہ روحانی طور پر محروم ہو جب وہ اس سے بھاگ گیا ہے جس کی خدا نے اس کے لیے ضمانت دی ہے؟جہاں وہ فرماتا ہے: الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ{2}
“وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہیں روزی دی، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا۔”
لالچی ، قرآنی احکامات اور خدا کے فرمان کے خلاف ہے جو قرآن میں فرماتا ہے: “وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، وہی ہے جس نے تمہیں روزی دی، وہی ہے جو تمہیں مارے گا اور وہی ہے جو تمہیں زندہ کرے گا،” لیکن یہ شخص توجہ نہیں دیتا، وہ بس اپنی بازو اور اپنے کام کی بات کرتا ہے؛ اسے اصلاً اس بات کا احساس نہیں ہے کہ خدا موجود ہے، غیبی روزی ہے، الٰہی مدد ہے، وہ اس وادی میں ہی نہیں ہے۔
فوٹ نوٹس:
- مصباح الشریعه
- روم (30)، آیۀ
کتاب عرفان اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔
شرح «مصباح الشريعة و مفتاح الحقيقة»، فصل سی ام: حرص.
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی