حج کے روحانی آداب ٢
کتاب مصباح الشریعہ سے حج کے عرفانی اور روحانی مناسک پر بحث جاری رکھتے ہوئے ہم اس تک پہنچے کہ:
٨. موت کی تیاری
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «وَ اسْتَعِدَّ اسْتِعْدَادَ مَنْ لَا يَرْجُو الرُّجُوع»
حج کی دوسری روحانی رسومات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو تیار کریں اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیں تاکہ آپ اپنے آپ سے یہ نہ کہیں کہ ’’اب میں اپنا کام کرنے جا رہا ہوں، میں بھی حج کروں گا، اور پھر حج کر کے اپنے گھر، خاندان اور زندگی میں واپس چلا جاونگا اپنے آپ کو یہ امید نہ دیں۔ اس کا مطلب ہے اپنے آپ پر دھیان مت دو، اپنے آپ کو خدا پر چھوڑ دو، شاید تم واپس نہیں آئے، تمہیں کیسے پتا؟
٩.خوش اخلاقی
«وَ أَحْسِنِ الصُّحْبَةَ»؛ حج پر جانے والوں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش اخلاق اور خوش برخورد ہونا چاہیے اور ان کے لیے ایک اچھا ساتھی بننا چاہیے۔
١٠. واجبات، آداب اور سنتوں کے اوقات کا لحاظ
«وَ رَاعِ أَوْقَاتَ فَرَائِضِ اللَّهِ تَعَالَى»؛ جب کوئی واجب کام پیش آئے تو آپ کو اس کا لحاظ کرنا چاہیے اور جلد از جلد اسے انجام دینا چاہیے۔ یعنی نماز کے اوقات میں آپ کو اپنی نمازیں وقت پر پڑھنی چاہئیں۔ کیونکہ سفر ہے، کبھی کبھی اوقات آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور نماز رہ جاتی ہے۔
«وَ سُنَنَ نَبِيِّهِ صل اله علیه و آله و سلم»؛ اسی طرح سنتوں اور مستحبات کی ادائیگی میں بھی تا حد امکان کوتاہی نہ کرو۔
«وَ مَا يَجِبُ عَلَيْكَ مِنَ الْأَدَبِ وَ الِاحْتِمَالِ وَ الصَّبْرِ وَ الشُّكْرِ وَ الشَّفَقَةِ وَ السَّخَاءِ وَ إِيْثَارِ الزَّادِّ عَلَى دَوَامِ الْأَوْقَاتِ»؛اسی طرح اس سفر میں لازم آداب اور سنتوں کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ آپ کو صبر اور برداشت زیادہ رکھنی چاہیے۔ شکر اور سپاسگزاری، شفقت اور دلسوزی، سخاوت اور زاد کو دوسروں پر ترجیح دینے کی صفات اس سفر میں رکھنی چاہئیں۔ ان آداب اور سنتوں کو ہمیشہ حج کے دوران یاد رکھنا چاہیے اور اگر کسی کو ضرورت ہو تو اپنے زاد کو اس پر قربان کر دینا چاہیے۔
١١. غسل توبہ کرنا
«ثُمَّ اغْسِلْ بِمَاءِ التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ ذُنُوبَك»پھر خالص توبہ کے پانی سے اپنے گناہوں کو دھو لو ،شاید حضرت علیہ السلام کے مقصد غسل توبہ کے علاوہ وہ آنسو بھی ہیں جو ایک توبہ کرنے والا روتا ہے اور اللہ سے بخشش طلب کرتا ہے۔
١٢. روحانی لباس پہننا
«وَ الْبَسْ كِسْوَةَ الصِّدْقِ وَ الصَّفَاءِ وَ الْخُضُوعِ وَ الْخُشُوعِ»؛ جب آپ حج پر جانے والے ہوں تو احرام کے لباس سے پہلے صداقت اور راستی، صفا، خضوع اور خشوع کے لباس پہننا چاہیے۔ اس ظاہری احرام کے لباس سے پہلے آپ کو اپنے اندر یہ روحانی لباس پیدا کرنے چاہئیں۔
١٣. روحانی احرام
«وَ أَحْرِمْ عَنْ كُلِّ شَيْءٍ يَمْنَعُكَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ عزوجل»؛ حاجی احرام کا لباس پہنتا ہے اور اس پر 25 چیزیں حرام ہو جاتی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آپ کو احرام معنوی بھی کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ان چیزوں سے احرام باندھ لینا چاہیے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرتی ہیں«وَ يَحْجُبُكَ عَنْ طَاعَتِهِ»؛ ( اور آپ کو اس کی اطاعت سے روکتی ہیں)۔
١٤. حقیقی تلبیہ
«وَ لَبِّ بِمَعْنَى إِجَابَةٍ صَافِيَةٍ خَالِصَةٍ زَاكِيَةٍ لِلَّهِ عزوجل»؛ جب آپ حج پر جاتے ہیں، تو دو احرام کے کپڑے پہننے اور نیت کرنے کے بعد، آپ کو زبان سے تلبیہ کہنا چاہیے۔ آپ کہیں گے: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْك» یہ تلبیہ زبان سے ہے، لیکن آپ کی تلبیہ، زبان کے ساتھ ساتھ حقیقی اور حقیقی تلبیہ بھی ہونی چاہیے۔
حقیقی تلبیہ یہ ہے کہ آپ کہیں کہ خداوندا میں نے آپ کے اس فرمان کی اجابت کی ہے: وَ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًاO{3} میں نے آپ کی دعوت کو لبیک کہا اور اس مقدس سرزمین پر آیا ہوں۔ لیکن خدا کی دعوت اور پکار کی یہ اجابت ایسی ہونی چاہیے جو صاف اور خالص خدا کے لیے ہو۔ اس میں کوئی دکھاوا یا ریاکاری نہ ہو۔ «فِي دَعْوَتِكَ لَهُ مُتَمَسِّكاً بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى»؛یہ خدا ہی تھا جس نے آپ کو بلایا تھا، آپ کو چاہیے کہ خدا کی مضبوط رسی کو تھام لیں۔
١٥. قلبی طواف
«وَ طُفْ بِقَلْبِكَ مَعَ الْمَلَائِكَةِ»؛آپ خانہ خدا گئے ہیں اور سات شوط طواف کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر میں آپ کا جسم طواف کر رہا ہے، لیکن باطن میں کیا؟ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اس طواف کو اپنے دل میں لے جائیں اور اپنے دل سے طواف کریں اور جانیں کہ آپ خانہ خدا کے گرد فرشتوں کے ساتھ ہیں۔ «مَعَ المَلاَئِکَةِ حَوْلَ الْعَرْشِ كَطَوَافِكَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ بِنَفْسِكَ حَوْلَ الْبَيْتِ»؛ ایک طواف، طواف قلب ہے، وہ بھی ملائکہ اللہ کے ساتھ۔ وہ ملائکہ جو عرش خدا کا طواف کرتے ہیں۔ آپ ایسی نیت رکھیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مومن کا دل عرش خدا ہے، {4} اس لیے ظاہری طواف کے ساتھ ساتھ دل میں بھی طواف رکھیں اور یہ طواف قلبی اس طواف ظاہری سے کم نہ ہو جو آپ مسلمانوں کے ساتھ خانہ خدا کے گرد کرتے ہیں، بلکہ فرشتوں کے طواف کے ساتھ ہو۔
فٹ نوٹ:
- مصباح الشریعه
- کلینی، الكافي، ج 4، ص 335.
- آلعمران (3)، آیۀ 97.
- «رُوِيَ أَنَّ قَلْبَ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ الرَّحْمَنِ» بحار الأنوار، ج 55، ص 39.
کتاب عرفان اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔
شرح «مصباح الشريعة و مفتاح الحقيقة»، بائیسواں باب: حج۔
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی