آخری زمانہ اور دعائے غریق
روایت میں ملتا ہے کہ آخری الزمان میں فتنے بڑھ جائیں گے اور آپ کو چاہیے کہ ”دعائے غریق” تلاوت کریں۔ غریق اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پانی میں ڈوب جائے اور ڈوبنے کے عمل میں ہو۔ ایسے شخص کو کسی لائف گارڈ یا کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ لے اور اسے ڈوبنے سے بچا لے۔ دعائے غریق کو پڑھنا لائف گارڈ کی مانند ہے جو ہمیں تباہی اور غرق ہو جانے سے بچاتا ہے۔
دعائے غریق یہ ہے: “يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِينِكَ” “اے اللہ! اے رحمان! اے رحیم! اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا!”
یہ دعا محکم سند رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دلچسپ واقعہ کی حامل ہے۔ شیخ صدوق نے اپنے سند کے ساتھ عبداللہ ابن سنان سے امام صادق علیہ السلام کی یہ روایت نقل کی ہے: “تمہارے سامنے ایک ایسا شُبہ آئے گا جس میں تمہارے پاس کوئی واضح نشانی اور ہدایت کرنے والا امام نہیں ہوگا۔ اس شبہ سے صرف وہ شخص رہائی پا سکے گا جو دعائے غریق پڑھے گا۔
عبد اللہ ابن سنان نے عرض کی: دعائے غریق کیسے ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: “يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِينِكَ”۔ راوی نے کہا کہ میں نے عرض کیا: “يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ وَ الاَبصَارِ ثَبِّتْ قُلْوبنا عَلَی دِينِكَ” امام علیہ السلام نے فرمایا: یقیناً اللہ دلوں اور نگاہوں کو پھیرنے والا ہے لیکن اسی طرح جیسا میں کہتا ہوں، تم بھی کہو: “… يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِينِكَ“
یقین به رازقیت خدا
حضرت امام سجاد علیہ السلام نماز مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں:«اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ لَا أُظْلَمَنَّ وَ أَنْتَ مُطِیقٌ لِلدَّفْعِ عَنِّی، وَ لَا أَظْلِمَنَّ وَ أَنْتَ الْقَادِرُ عَلَى الْقَبْضِ مِنِّی، وَ لَا أَضِلَّنَّ وَ قَدْ أَمْكَنَتْكَ هِدَایتِی، وَ لَا أَفْتَقِرَنَّ وَ مِنْ عِنْدِكَ وُسْعِی، وَ لَا أَطْغَینَّ وَ مِنْ عِنْدِكَ وُجْدِی؛{1}
خدایا! درود فرست بر محمد و آل او. ستم نمیشوم در حالی که تو توان دفع ستم از من را داری. و ستم نمیکنم در حالی که تو توانایی بازداشتن من از ستم را داری. و هرگز گمراه نمیشوم زیرا تو توانایی هدایت مرا داری. و هرگز فقیر نمیشوم زیرا وسعت روزی از جانب توست. و هرگز سرکشی نمیکنم زیرا توانایی من از جانب توست.
وَ لاَ أَفْتَقِرَنَّ وَ مِنْ عِنْدِکَ وُسْعِیاے اللہ!
میں فقر و فلاکت میں مبتلا نہ ہوں، حالانکہ رزق کی وسعت تیرے ہاتھ میں ہے اور تو جسے چاہے تنگ کر دے اور جسے چاہے وسعت دے۔» یہاں بھی یقین اور ایمان کامل حاصل کرنا ضروری ہے کہ رزاقیت اللہ کی ہے اور رزق کی تقسیم بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں قرآن میں پڑھا ہے: «وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ» یعنی اللہ نے بعض لوگوں کو رزق میں بعض پر فضیلت دی ہے۔ (کیونکہ آپ کی صلاحیتیں اور کوششیں مختلف ہیں)
لیکن صرف یہ پڑھنا اور جاننا ہی کافی نہیں۔ مضبوط یقین اور عقیدہ بھی ضروری ہے۔ جب ہم پر یہ یقین ہو جائے کہ رزق کی یہ تقسیم لوحِ محفوظ میں لکھی جا چکی ہے، تب ہم اس بات پر اعتراض نہیں کریں گے کہ فلاں شخص کے پاس اتنا کچھ کیوں ہے اور میرے پاس کیوں نہیں ہے۔
ادھر حسد کا مسئلہ بھی الگ ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو اس بات پر حسد ہو کہ ایک شخص نے محنت سے پڑھائی کی اور پھر اچھی نوکری حاصل کر لی جبکہ ہماری زندگی کاہلی اور سستی میں گزر گئی، تو یہ اچھا ہے۔ اگر ہمارے دل میں یہ خیال ہو کہ “کاش اس کے پاس کچھ نہ ہوتا اور میرے پاس ہوتا”، تو یہ دوسروں کے لیے بدخواہی ہے اور ناپسندیدہ ہے۔ ایک مومن کو ہمیشہ دوسروں کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔
یقینا، میں یہ بھی عرض کر دوں کہ سیر و سلوک میں رزق کی تنگی اور وسعت دونوں کی اہمیت ہوتی ہے، اور دونوں ہی میں اللہ کا رزاق ہونا شامل ہے۔ بعض اوقات اللہ آپ کے ہاتھ خالی کر دیتا ہے تاکہ آپ اپنی غربت اور عاجزی کو محسوس کریں اور آپ کو اپنی دولت، صحت، اولاد، علم اور حتی کہ اپنے روحانی مقامات پر غرور نہ ہو۔
اگر اللہ تعالیٰ کسی کو سیر و سلوک الی اللہ کے راستے میں کوئی مقام و مرتبہ عطا فرمائے تو اسے بہت احتیاط کرنی چاہیے اور ان روحانی مقامات کے باعث غرور و تکبر میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر و بالا سمجھنا چاہیے۔ آپ کو یہ نہیں معلوم کہ آپ کا اور دوسروں کا انجام کیسا ہوگا۔ ایک شخص جو اس وقت برا ہے، ممکن ہے وہ توبہ کر لے اور اس کا انجام اچھا ہو۔
«وَ لاَ أَطْغَیَنَّ وَ مِنْ عِنْدِکَ وُجْدِی»؛
خدایا! مجھے سرکشی اور طغیان میں مبتلا نہ کر جبکہ تو جانتا ہے اور میں بھی یہ جانتا ہوں کہ ثروت، قدرت، صحت اور ان تمام چیزوں کی وجہ سے جو باعث طغیان ہیں، یہ سب تیری ہی عطا کردہ ہیں۔ یہ طغیان دوسروں پر ظلم کرنے سے مختلف ہے۔ یہ ذاتی طغیان ہے، یعنی بعض اوقات انسان خود ہی طغیان میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ طغیان کے عوامل بھی مختلف ہیں جیسے علم زیادہ، مال زیادہ، اولاد، نوکر چاکر اور سماجی مقام و مرتبہ بھی خطرناک ہیں اور طغیان کا سبب بن سکتے ہیں۔
انسان کو ہمیشہ عاجزی، انکساری اور خاکساری کے جذبات کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خبردار کیا ہے: “إِنَّ الْإِنسَانَ لَیطْغَى أَن رَآهُ اسْتَغْنَى” بیشک انسان سرکشی کرتا ہے جب وہ خود کو بے نیاز سمجھتا ہے۔”
جب کوئی شخص خود کو بے نیاز دیکھتا ہے اور مالی وسعت پاتا ہے، تو ممکن ہے کہ اسی دولت کے باعث وہ طغیان کرے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر جائے۔
لہذا انسان کو ہر حالت میں دعا کے لیے ہاتھ بلند رکھنے چاہییں اور خیرات و صدقات جاری رکھنے چاہییں تاکہ اسے کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
فٹ نوٹ:
- صحیفه سجادیه، دعای مکارم الاخلاق
- ابن بابویه، کمال الدین، ج2 ، ص352.
- همان.
- نحل (16)، آیه 71.
- علق (96)، آیه 7-6.
کتاب اخلاق اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔
شرح «دعای مکارم الاخلاق »
فراز ۱۴: ظلمستیزی و ظلمگریزی
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی