خُدا پر نیک عقیدہ

خُدا پر نیک عقیدہ

امام سجاد علیہ السلام دعائے مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں:«اللَّهُمَّ أَنْتَ عُدَّتِی إِنْ حَزِنْتُ؛ اے اللہ! تو میرا سامان اور ذخیرہ اور مددگار ہے جب میں کسی معاملے میں غمگین ہوجاتا ہوں۔«وَ أَنْتَ مُنْتَجَعِی إِنْ حُرِمْتُ؛ اے اللہ! تو میرا سہارا ہے اگر میں محروم رہ جاؤں۔ «وَ بِکَ اسْتِغَاثَتِی إِنْ کَرِثْتُ؛ اے اللہ! جب بھی میں سختی اور مشکل میں پھنس جاتا ہوں، تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔

یہ جملے امام معصوم علیہ السلام زبان سے نکالتے ہیں، وہ امام جو بلند ترین مرتبے کے توحید اور معرفت کے مالک ہیں اور ایمانِ حق الیقین سے نوازے گئے ہیں۔ جب ہم بھی اپنے رب سے مناجات اور گفتگو کرنا چاہیں تو اللہ کی عظمت اور بزرگی پر ایمان رکھنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ہماری حاجت پوری کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

اسی طرح، جب ہم اللہ سے کوئی حاجت مانگتے ہیں تو ہمیں اللہ پر حُسن ظن رکھنا چاہیے۔ دینی تعلیمات کے مطابق، مومن پر بدگمانی جائز نہیں ہے اور ہمیں اپنے پڑوسی، دینی بھائیوں پر حُسن ظن رکھنا چاہیے، ہاں البتہ جب تک کہ اس کے خلاف ثابت نہ ہو۔ جب ہم یہ حُسن ظن مسلمانوں کے بارے میں رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کی پیچھے بُری بات نہیں کرنی چاہیے اور اس پر حُسن ظن رکھنا چاہیے، کیا ہمیں اللہ پر حُسن ظن نہیں رکھنا چاہیے؟

اساسی سوال یہ ہے کہ عملًا ہم کس قدر خدا کی عظمت پر ایمان رکھتے ہیں اور کتنی خوش ظنی کے ساتھ اس کی طرف جاتے ہیں؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم خدا کے بندوں سے بات چیت کرتے ہیں تو ادب اور نزاکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن جب ہم خود کو خدا کے سامنے پاتے ہیں تو ہم ادب اور احترام کو بالکل بھول جاتے ہیں۔

ہم دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہیں، لیکن آئیے اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم اپنی نمازوں میں خدا کے ادب و احترام کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور اس کی موجودگی کو کتنی شدت سے محسوس کرتے ہیں؟ ادب کا تقاضا ہے کہ جب ہم خدا کے سامنے ہوں تو توجہ کو زیادہ مرکوز رکھیں، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔

یہ بعید ہے کہ ہم کسی سمجھدار بچے کی موجودگی میں گناہ کریں گے لیکن خدا کی بارگاہ میں ہم آسانی سے بہت سارے گناہ کر بیٹھتے ہیں۔ ہمیں چوتھے امام علیہ السلام سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے خدا کے ساتھ راز و نیاز کرتے ہیں۔ اس دعا کے اس حصے کے جملے بہت اچھے طریقے سے یہ بات واضح کرتے ہیں کہ امام تمام چھوٹے اور بڑے مسائل کو اللہ کے سامنے صاف دل اور پاکیزہ  ارادے  کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

اللہ اور فوت شدہ نعمتوں کا جبران

«وَعِنْدَکَ مِمَّا فَاتَ خَلَفٌ؛ اے اللہ! جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اور ضائع ہو جائے اس کے بدلے میں تیرے پاس (اس کا) نعم البدل (بہتر نعمت) موجود ہے۔»

اگر مال و دولت ہم سے چوری ہو جائے یا ہماری عزت، حیثیت اور سماجی مقام کو کوئی نقصان پہنچے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ان نقصانات کا پورا پورا ازالہ کر سکتا ہے۔ اسی لیے اس دعا میں ہم اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اگر ہم سے کوئی چیز فوت ہو جائے تو اسے دوبارہ لوٹا دے۔

میرے ایک دوست کا کچھ مہینوں کا بہت خوبصورت اور پیارا بچہ تھا۔ اس بچے کو اچانک تشنج کا دورہ پڑا اور ڈاکٹر، ہسپتال اور دوائیوں کا فائدہ نہ ہوا اور وہ فوت ہو گیا۔ اس کا والد بہت غمگین تھا۔ جب ہم نے اس سے ملاقات کی تو ہم نے پوچھا: آپ اتنا غم کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کی بیوی ابھی جوان ہے انشاءاللہ ایک اور بچہ ہو گا۔ بالکل ایسا ہی ہوا۔ اب ان کا ایک اور بچہ ہے، جو ہو سکتا ہے پہلے بچے سے بھی زیادہ بہتر اور خوبصورت ہو۔

اسی وجہ سے ہمیں ان چیزوں کے لیے غم نہیں کھانا چاہیے جو ہم سے فوت ہو جاتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا دوبارہ جبران کر دے گا۔ اصل میں زہد کا یہی مطلب ہے کہ مال، دولت اور دیگر چیزوں کے آنے جانے سے انسان متاثر نہ ہو۔ قرآن کریم نے اسی بات کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: Pلِكَیلاَ تَأْسَوْا عَلَى‏ مَا فَاتَكُمْ وَلاَ تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْO؛ اس چیز پر غمگین نہ ہو جو تم سے نکل جائے اور اس چیز پر خوش نہ ہو جو تمہیں مل جائے۔

اللہ اور فسادوں کا جبران

«وَ لِمَا فَسَدَ صَلاَحٌ؛ ے اللہ! اگر کوئی میرا کام بگڑ جائے تو بھی تو اسے درست کر سکتا ہے ۔ یہاں فساد کا لفظ عام مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور ہر مسئلے کو شامل ہے۔ دعا کا یہ حصہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ تمام بگاڑ کی تلافی ممکن ہے۔

کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا ہم اتنے گناہوں کے ساتھ سلوک اور روحانیت کی راہ پر چل سکتے ہیں؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ اس راہ پر چلیں، باقی چیزوں کو اللہ خود درست کر دے گا۔ کیونکہ حدیث قدسی میں فرمایا گیا ہے:«مَنِ اقتَرَبَ إلَی شِبْراً اقتَرَبتُ إلَیهِ ذِراعاً و مَنِ اقتَرَبَ إلَی ذِراعاً اقتَرَبتُ إلَیهِ باعاً و مَن أتانی یمشی أتَیتُهُ هَروَلَةً؛ جو کوئی میری طرف ایک بالشت بھر قدم بڑھاتا ہے، میں اس کی طرف ایک گز بڑھ جاتا ہوں، اور جو کوئی ایک گز بڑھاتا ہے، میں اس کی طرف دو گز بڑھ جاتا ہوں، اور جو شخص میری طرف چل کر آتا ہے، میں اس کے پاس دوڑ کر جاتا ہوں۔»

اللہ اور ناپسندیدہ امور کی تبدیلی

«وَ فِیمَا أَنْکَرْتَ تَغْیِیرٌ؛ اے اللہ! اگر میرے اندر کوئی ناپسندیدہ امور موجود ہیں تو انہیں تبدیل کر دے۔ اے اللہ! اگر آپ نے مجھ میں کوئی ایسی باتیں دیکھیں جو آپ کو پسند نہیں آئیں اور آپ یہ کہیں کہ “میرے بندے کو اس طرح نہیں ہونا چاہیے”، تو میں آپ کی بارگاہ میں آتا ہوں اور عرض کرتا ہوں: “یا اللہ! آپ ہی میری مدد کریں کہ میرے اندر یہ تبدیلی اور ترقی پیدا ہو جائے۔ یہی مضمون رمضان کے دعاؤں میں سے ایک دعا میں بھی اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں: «اللَّهُمَّ أَصْلِحْ كُلَّ فَاسِدٍ مِنْ أُمُورِ الْمُسْلِمِینَ‏؛ اے اللہ! مسلمانوں کے تمام بگڑے ہوئے معاملات کو درست فرما دیں۔{4}

 

فٹ نوٹ:

  1. صحیفه سجادیه، دعای مکارم الاخلاق
  2. حدید (57)، آیه 23.
  3. متقی هندی، كنز العمّال، ج 1، ص 225؛ ابن أبی جمهور، عوالی اللئالی، ج ‏1، ص 56.
  4. كفعمى، البلد الأمین و الدرع الحصین، ص 223.

 

کتاب اخلاق اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔

 شرح «دعای مکارم الاخلاق »، فراز نمبر20: توکل کامل بر خداوند

تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی

aghajan

فہرست کا خانہ