نیچے کی دنیا میں واپس جانے سے کیسے بچیں؟

نیچے کی دنیا میں واپس جانے سے کیسے بچیں؟

روحانی ترقی کو برقرار رکھنا اور تنزّل سے بچنا

اپنے سلوک اور جہاد میں کسی چھوٹی سی لغزش کے بعد، دوبارہ نچلی دنیا میں جانے سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ میرے عزیز دوست! آپ کو چاہیے کہ اذکار کے نتیجے میں آپ کے اندر آنے والی روحانی اور معنوی تبدیلیوں پر کنٹرول رکھیں اور انہیں فوکس کریں، چاہے وہ تبدیلیاں کتنی ہی کم ہوں۔ (1)

“قطرہ قطرہ جمع ہو کر دریا بنتا ہے”۔ آپ کو اپنے باطن میں وحدت کے اس سمندر کو تلاش کرنا چاہیے اور اس میں غرق ہو جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ (2)

“السائحون” (سفر کرنے والے) (2)۔ آپ کو ایک روحانی سفر پر نکلیں۔ آپ کو اندرونی اور روحانی سیاحت حاصل کرنی چاہیے، اور یہ سفر اس وقت تک جاری رکھنا چاہیے جب تک یہ آپ کی فطرت کا حصہ نہ بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلسل توجہ اور دعا کرنی چاہیے، اور ہم راستے میں رک نہیں سکتے۔

خدا نہ کرے کہ کوئی انسان “اسفل ‌السافلین” (سب سے نچلی جگہ) میں واپس چلا جائے۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کو، جسے ابھی تک اس راستے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور وہ بالکل جاہل ہے، اس شخص کے برابر سمجھتے ہیں جو اس راستے کو جانتا ہے؟ ایک حدیث میں ہے: “امام جعفر صادق علیہ السلام نے حفص سے فرمایا: جاہل کے 70 گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اس سے پہلے کہ عالم کا ایک گناہ معاف ہو۔” (3)

اپنی توجہ مرکوز رکھیں! اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے اور اس راستے پر لایا ہے، اور ہمیں ایک سراغ مل گیا ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہم کسی بھی وجہ سے اس راستے پر سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو ہم اسی نچلی دنیا میں واپس چلے جائیں گے جہاں ہم پہلے تھے، بلکہ اس سے بھی بدتر جگہ جا سکتے ہیں۔ (4)

“اور جو کوئی میرے ذکر سے منہ موڑ لے گا تو اس کے لیے تنگ زندگی ہو گی۔” (4)

اگر کسی سالک کو مشکلات کا سامنا  کرنا پڑھے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مضبوط قدموں سے نہیں چل رہا ہے۔ اور جب آپ اپنے رب کے ساتھ دلی توجہ کو مکمل طور پر مضبوط اور مستحکم کر لیں گے، اس راستے کے عہدوں اور وعدوں پر پابند رہیں گے اور اپنے استاد سے کیے گئے عہد کو وفا کریں گے تو آپ یقیناً منزل تک پہنچ جائیں گے۔

 

«اَلجِنسُ مَعَ الجِنسِ یَمِیلُ وَ الطَیَرُ مَعَ الطَیرِ یَطِیرُ»{5} اس راستے پر مطابقت حاصل ہونی چاہیے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اساتذہ کے کیا جذبات اور حالات تھے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ جیسے پہلے تھے یا تھوڑے بہتر ہوں، لیکن آپ میں شریفانہ سلوک کی وہ فکر اور پریشانی نہ ہو، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

دعای کمیل میں پڑھتے ہیں:

«حَتَّی تَکُونَ اَعمَالِی وَ اَورَادِی وِردَاً وَاحِداً وَ حَالِی فِی خِدمَتِکَ سَرمَداً»{6}  تاکہ میرے تمام اعمال اور اقوال ایک جیسے ہوں (اور آپ کے لیے ہوں) اور میں ہمیشہ آپ کی خدمت میں رہوں۔ اس سرمدیت کو تلاش کرنا چاہیے، ورنہ کبھی کبھی آپ سلوک کی مجلس میں آتے ہیں اور ایک کیفیت حاصل کرتے ہیں، لیکن یہ مستقل نہیں رہتی ہے تاکہ اسے عادت بنایا جا سکے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان حالات اور روحانی فضائل کو عادت بنایا جائے۔

اس راہ پر اہم یہ ہے کہ سالک کی روح سنجیدگی پیدا کرے اور اس شَمّ المعرفت کو حاصل کرے۔ بعض لوگ فقہ میں کوشش اور محنت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اجتہاد کے مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔ جب کسی شخص کو وہ علمی قوت اجتہادی حاصل ہو جاتی ہے، تو وہ فقہی فتوے نکال سکتا ہے اور اس علمی اور فقہی خوشبو کے ساتھ مسائل کو حل و فصل کر سکتا ہے۔

اگر فقہی مسائل میں یہی معاملہ ہے اور مجتہدین کے لیے شَمّ الفقہ ضروری ہے، تو اہل سلوک کے لیے بھی ایسی ہی ایک سنجیدگی اور مناسبت ضروری ہے، جسے ہم شَمّ العرفان کہتے ہیں۔

ایک شخص  کہا کرتے تھے: میرے استاد کے پاس ایک خاص خوشبو کا عطر تھا جسے وہ نماز کے وقت بھی لگاتے تھے اور نماز کے علاوہ بھی۔ اور سب شاگرد اس خوشبو کو سونگھتے تھے۔ حالانکہ استاد کو زمانے گزر چکے ہیں، وہ آج بھی اپنے استاد کی خوشبو اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔ ایسی بہت سی روایات کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن آپ کا کیا حال ہے، میرے عزیز؟ کیا آپ نے یہ روحانی نسبت اور مناسبت پائی ہے؟ وہ خوشبو محسوس کرنا جس کا ذکر حدیثِ کساء میں آیا ہے: ”إِنِّي اَشَمُّ عِندَکَ رَائِحَةً طَیِّبَةً کَاَنَّهَا رَائِحَةُ جَدِّي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ“ {7} یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے۔

وہ واقعی خوشبو سونگھتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کو نہیں دیکھتے تھے مگر خوشبو سونگھ لیتے تھے۔ اویس قرنی رضى الله عنه یمن سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے مدینے آئے تھے، ان کی والدہ نے کہا تھا کہ اگر دیکھو کہ حضور ﷺ تشریف نہیں رکھتے تو واپس آ جانا، وہ اپنی والدہ کے حکم سے واپس چلے گئے، جب حضور ﷺ گھر تشریف لائے تو فرمایا: مجھے اویس کی خوشبو آ رہی ہے۔ یہ سونگنا ظاہری نہیں بلکہ روحانی اور معنوی ہے۔ بہت سے لوگ اس قسم کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔ آپ بھی اگر کوشش کریں اور عالمِ معنیٰ سے نسبت پیدا کریں تو اس ادراک تک پہنچ سکتے ہیں۔

تو کیا آپ کی روح میں جذبہ اور کشش نہیں ہونی چاہیے؟ کیا آپ کی روح کو اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرنی چاہیے؟

اس لیے انہوں (مرشد) نے فرمایا: یہاں تک کہ سالک دنیا کے پاک لوگوں سے نسبت نہ پیدا کر لے، ان کے مراتب تک پہنچنا اس کے لیے ممکن نہیں اور وہ ان بلند مقامات تک نہیں پہنچ سکتا، بلکہ سلوک میں تھوڑی سی لغزش کی وجہ سے اسے دوبارہ نچلی دنیا میں گرا دیا جائے گا، کیونکہ یہ شخص اس شخص سے مختلف ہے جسے اس راستے کی کوئی خوشبو بھی نہیں آئی۔

اگر یہ شخص برسوں بعد اسراستہ کو چھوڑنا چاہتا ہے، تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کی طرف سے بہت زیادہ نقصان اٹھائے گا۔ اگر ہم اس  راستہ پر سست روی اختیار کریں، کمر ہمت نہ باندھیں اور کوشش نہ کریں تو یقینا ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ غیور ہے اور ہر کسی کو اپنے جلال کے دامن میں نہیں آنے دیتا اور اگر کوئی اس راستہ پر داخل ہوا اور پھر اس راستے سے واپس آیا تو وہ خود نقصان اٹھائے گا۔ {8}

یہی بات اس فرمانِ الٰہی]وَ مَا مُحَمَّدٌ إلَّا رَسُولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَو قُتِلَ انقَلَبتُم عَلَی أَعقَابِکُم[{9} ب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔».

یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر سلوک کے راستے میں کوتاہی کی جائے تو دوبارہ نچلی دنیا میں جانے کا خطرہ ہے۔ یہی نکتہ اس آیتِ مبارکہ سے بھی ملتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں تو اس راستے پر چلے اور پھر آپﷺ کے وصال کے بعد اس راہ سے ہٹ جائے؟

کیا یہ بات درست ہے کہ جب تک استاد جلسوں میں موجود ہوں، ہمارا حال اچھا رہے، لیکن جیسے ہی استاد نہ ہوں یا دنیا سے چلے جائیں، شاگردوں میں اختلاف پیدا ہو جائے اور ان کی اتحاد، بھائی چارگی اور تعاون ختم ہو جائے؟ تو آپ کو چاہیے کہ استاد کی حیات میں ہی اپنے اور باقی شاگردوں کے درمیان الفت، محبت، بھائی چارگی اور دوستی قائم کر لیں، تاکہ شیطان اور نفس و دنیا کے وسوسے آپ میں تفرقہ نہ ڈال سکیں۔ ورنہ آپ کا حال ان لوگوں جیسا ہو جائے گا جو نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد دینِ خدا سے پھر گئے تھے۔

 

 

فٹ نوَٹ:

  1. چلچراغ سلوک شرح « لب اللباب در سیر و سلوک اولی الالباب
  2. توبه(9) آیه112.
  3. كافی، ج‏1، ص 115، باب لزوم الحجة على العالم و تشدید الأمر علیه.
  4. طه(20) آیه124.
  5. کبوتر با کبوتر باز با باز*** کند هم‌جنس با هم‌جنس پرواز.
  6. مفاتیح‌الجنان، ص62، دعای کمیل.
  7. مفاتیح الجنان، ص612، حدیث کساء.
  8. الإمام الصادق علیه السلام إنَّ اللّه َ تَباركَ وتَعالى غَیورٌ یحِبُّ كُلَّ غَیورٍ، ولِغَیرَتِهِ حَرَّمَ الفَواحِشَ کو حرام کیا ہے. کافی، ج5، ص 535.
  9. محمد رسول اللہ ﷺ صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ تو کیا اگر وہ (محمد ﷺ) فوت ہو جائیں یا مارے جائیں تو کیا تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل پر پلٹ جاؤ گے؟آل عمران(3) آیه144

 

کتاب چلچراغ سلوک سے ماخوذ  ہے

شرح « لب اللباب در سیر و سلوک اولی الالباب»، پہلا حصہ:معرفتی اجمالی دربارۀ سلوک

تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی

2cebf8188a182665bb8b3b1ee10750bb

فہرست کا خانہ