مستقل مراقبے کے فوائد

مستقل مراقبے کے فوائد:

الف: الٰہی عشق کا ظہور

مرحوم علامہ طہرانی فرماتے ہیں: ’’مسلسل اور اس پر توجہ دینے والی مراقبے کے نتیجے میں، سالک کے ضمیر میں محبت اور عشق کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔‘‘ [1]

اس لیے اگر آپ عاشق بننا چاہتے ہیں تو آپ کو یہی کام کرنا چاہیے۔ اپنی مراقبے کو زیادہ کریں! اگر آپ نے مراقبہ بڑھا دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنے دل کے گھر میں خدا کو لے آئے ہیں۔ اس صورت حال میں آپ اپنے دل میں ہی اس کے ساتھ خوبصورت باتیں کرتے ہیں اور خدا سے عشق کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اسے اپنے دل اور روح میں جگہ دے دی ہے،

پھر آپ دیکھتے ہیں کہ یہ خدا کتنا مہربان ہے لیکن کچھ لوگ خوف میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ انہوں نے خدا کو خود سے دور کر دیا ہے۔ ریاضت اور نفس کی تزکیہ کے لیے خوف رکھنا تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ زیادہ خوف کے ساتھ خدا کو اپنے آپ سے دور رکھنا چاہتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ اسے ضرور امید کے عنصر کا استعمال کرنا چاہیے کیونکہ امید کا عنصر ہی انسان کو خدا کے قریب لاتا ہے۔

’’اس لیے کہ مطلق جمال اور کمال سے محبت فطرتِ انسانی ہے اور اس کی فطرت میں رچی ہوئی ہے اور اس کے ذات میں بطور امانت رکھی گئی ہے، لیکن کثرت کے شوق اور مادیات کی محبت، فطری عشق کے پردے بن جاتی ہیں اور اس ازلی پرتو کو ظاہر نہیں ہونے دیتیں۔‘‘

انسانی فطرت میں توحید کا فطری عشق آدمی کے ساتھ ایک پوشیدہ چیز ہے اور اس کی سرشت کا لازمی جز ہے اور انسان کو مستقل مراقبے کے ذریعے اسے حاصل کرنا چاہیے۔ یعنی اسے چاہیے کہ وہ اس غبار اور پردوں کو ہٹا دے تاکہ فطرت کا وہ پھول کھل جائے، پھر انسان اپنے اندر الٰہی جمال کی محبت کو سمجھ اور محسوس کر سکتا ہے،

لیکن جو لوگ اپنی فطرت سے بے خبر ہیں اور ہمیشہ کثرت اور مادیات سے وابستگی رکھتے ہیں، وہ ہمیشہ پردوں میں گھرے رہتے ہیں اور جب تک یہ پردے ہوں گے تو وہ ازلی عشق کی یہ روشنی ان میں کبھی نہیں جگمگائے گی۔

مراقبے کی وجہ سے حجاب بتدریج کمزور ہوتے جاتے ہیں اور آخر کار وہ بالکل ختم ہو جاتے ہیں اور وہ فطری عشق اور محبت نمودار ہوتی ہے جو انسان کے ضمیر کو اس جمال و کمال کے سرچشمے کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ عرفاء کی اصطلاح میں اس مراقبے کو ’’می‘‘ کہا جاتا ہے۔

جب حافظ اپنی شاعری میں ’’می‘‘ اور ’’مے خانے‘‘ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی مراد یہی روحانی ’’می‘‘ یعنی عشق اور الٰہی فطرت ہوتی ہے۔ لیکن، بعض لوگوں نے غلط فہمی کی وجہ سے ’’شراب‘‘، ’’می‘‘ اور ’’مے خانے‘‘ جیسے الفاظ کو عام شراب اور موسیقی کے طور پر سمجھ سکہتا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ وہ غزل کے ساتھ خوبصورت لڑکیوں کی تصاویر بنا دیتے ہیں

ایسے کچھ لڑکے اور لڑکیاں جو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں، وہ حافظ کے مزار پر آتے ہیں اور ان کا دیوانِ اشعار اٹھا کر فال لیتے ہیں۔

مطلب یہ کہ وہ حافظ کی شاعری کی مجازی عشق میں تشریح کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں حافظ کی ان اشعار میں مراد حقیقی الٰہی عشق ہوتی ہے۔

’’اس لیے ہم دنیا کے غم کو اپنے دل میں رکھتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اس ’’می‘‘ کا غم نہیں ہے۔ اگر اس ’’می‘‘ کا غم اس کی جگہ لے لے تو دنیا اور مادیات کا غم بھاگ جائے گا اور بالکل دل سے نکل جائے گا۔ وہی غم، سچا غم ہے۔‘‘

وہ غم انسان کی پاک فطرت کے مطابق غم ہے۔ دوسری طرف، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ الٰہی عشق کا غم، روحانی خوشی کے ساتھ بھی مل جاتا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے ایک مؤمن کی نشانیوں میں سے ایک کا ذکر اس طرح فرمایا ہے: ’’بِشرُهُ فِی وَجهِهِ وَ حُزنُهُ فِی قَلبِهِ‘‘ یعنی مؤمن کی خوشی اس کے چہرے پر اور اس کا غم اس کے دل میں ہوتا ہے۔ [2]

ب: سالک کے دل میں الٰہی انوار کا طلوع

’’جب سالک مراقبے کے معاملے میں مستقل رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر مہر اور رحمت کی بنا پر، روشنیوں کو اس پر بطور ہراول کے ظاہر کر دیتا ہے۔‘‘

اب اگر مراقبہ قلبی کو مضبوط کرے تو عشق طلوع کرتا ہے اور اگر عشق طلوع کرے تو پھر یہ انوار طلوع ہوتے ہیں۔ یہ انوار رنگ برنگے بھی ہوتے ہیں، سبز، سرخ یا سیاہ ہو سکتے ہیں۔ علامہ طہرانی فرماتے ہیں: ’’شروع میں یہ انوار بجلی کی طرح نمودار ہوتے ہیں اور اچانک چھپ جاتے ہیں۔‘‘

’’عاشق سالک کے دل میں ابتدا میں یہ روشنیاں دیکھنا بہت تیز رفتار ہوتا ہے اور بجلی کی طرح آتا جاتا رہتا ہے۔ یہ انوار بتدریج مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے روشن ستاروں کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔‘‘ آپ ایک تاریک میدان میں رات کے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو اپنے اوپر، اتنے سارے ستاروں کے درمیان، ایک بہت چھوٹا سا ستارہ دیکھتے ہیں جو بہت زیادہ روشن ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ روشنیاں جو سالک کے دل میں مسلسل مراقبے، صبر اور استقامت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں، وہ چھوٹی اور باریک ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بہت روشن ہوتی ہیں۔

’’پھر یہ انوار مزید قوت پا کر پہلے چاند کی صورت میں پھر سورج کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں اور کبھی کبھی روشن چراغ یا قندیل [3] کی شکل میں بھی نظر آتے ہیں۔ اور عرفاء کی اصطلاح میں ان انوار کو ’’نور عرفانی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ انوار برزخی مخلوقات کی قسم سے ہیں‘‘۔

یعنی یہ انوار صرف مثالیں ہیں۔

یہ مثال کی دنیا ہے، میرے عزیز! یہ نہ سوچیں کہ آپ پہنچ چکے ہیں اور کام ختم ہو گیا ہے۔ بعض لوگ جب تک انکشافات اور روشنیاں دیکھتے ہیں تو انہیں سے لگاؤ پیدا کر لیتے ہیں اور اپنے موجودہ حالات کا موازنہ اس حالت سے کرتے ہیں جب وہ ابھی سلوک کے سفر پر نہیں آئے تھے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ’’پھر وہ کون سا وقت تھا اور اب کون سا وقت ہے؟

اس وقت آپ سلوک کے راستے پر نہیں آئے تھے، اس لیے آپ نے کچھ نہیں دیکھا۔ لیکن اب آپ سلوک کے سفر پر آگئے ہیں اور آپ روشنی دیکھتے ہیں اور آپ کی حالت بدل گئی ہے، لیکن آپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کام ختم ہو گیا ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اب ہم دن رات روشنی دیکھتے ہیں، تو ہم روحانی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں اور کام ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے ہیں، جب کہ وہ نہیں جانتا کہ روشنیوں کی دنیا کے بعد بھی کچھ اور دنیا ہیں جن تک اسے پہنچنا ہے اور وہ ان روشنیوں کی منتقلی اور لین دین میں مصروف ہے۔

لیکن جب سالک کی ان مراحل سے توجہ مضبوط ہو جاتی ہے اور وہ مراقبے کی پابندی کا مکمل خیال رکھتا ہے تو یہ روشنیاں اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہیں اور سالک پورے آسمان اور زمین اور مشرق و غرب کو ایک ہی نورانی جگہ کے طور پر دیکھتا ہے۔

خاص طور پر اگر وہ توحید کی روشنی تک پہنچ گیا ہے تو پھر اس کے لیے ہر جگہ روشن ہو جاتی ہے۔ یہ روشنیاں برزخی اور مثالی وجود ہیں جو سالک کو نظر آتی ہیں۔ یہ نور، پاک نفس کا نور ہے۔ لیکن اس بات کو اچھی طرح سے ذہن میں رکھیں کہ مقاماتِ توحید تک ابھی بہت فاصلہ ہے۔

یہ نور، نفس کا نور ہے جو برزخ سے گزرنے کے دوران نمودار ہوتا ہے، لیکن گزرنے کے ابتدائی مراحل میں جب نفس کے ظہورات کا آغاز ہونے والا ہوتا ہے تو سالک اپنی روح کو مادی شکل میں دیکھتا ہے اور دوسرے الفاظ میں، وہ یہ دیکھ سکتا ہے کہ وہ خود اپنے سامنے کھڑا ہے۔ یہ نفس کے تجرد کا ابتدائی مرحلہ ہے۔

مثال کے طور پر، جب سالک چلتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ خود اپنے ساتھ ہے اور اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ سب انسان کے سامنے آنے والی مثال کی دنیا کی صورتیں ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ اہم نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک خوشخبری اور بشارت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ سالک راستے پر ہے، لیکن وہ ابھی تجرد کے ابتدائی نقطے پر ہی ہے۔

ایسے اعلیٰ مراحلِ تجرد تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت دور ہے جہاں سالک کو موت اختیاری حاصل ہو جاتی ہے۔ موت اختیاری کا مطلب ہے کہ روح جسم سے نکل جاتی ہے اور دنیاؤں میں سیر کرتی ہے اور پھر واپس آ جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سالک اپنے جسم سے اپنی روح نکال سکے۔ بزرگوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے اختیار سے اپنی روح نکال لیتے تھے۔

 

فٹ نوٹ:

  1. لب اللباب در سیر و سلوک اولی الالباب
  2. نهج البلاغه، ص534.
  3. چیزی است که در آن چراغ می افروزند و آن معرب کندیل است. لغت‌نامه دهخدا.

کتاب چلچراغ سلوک سے ماخوذ ہے

 شرح « لب اللباب در سیر و سلوک اولی الالباب»، پہلا حصہ: معرفتی اجمالی دربارۀ سلوک

تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی

eadeb1f2a877ec5f770c7bb4039a7fe3

فہرست کا خانہ