توحید کے حقائق تک پہنچنے والے
مرحوم علامہ طہرانی فرماتے ہیں: ’’ حقائق کے بارے میں دو قسم کے لوگوں نے بات کی ہے‘‘ {1}
دو گروہ ایسے ہیں جو توحید کے ان حقائق تک پہنچ چکے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ آپ کو ان حقائق کے بارے میں بتا سکتے ہیں اور ان کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں۔ پہلا گروہ انبیاء اور اہل بیت علیہم السلام کا ہے جن کا علم لدنی ہے اور وہ الٰہی عصمت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو انبیاء اور اہل بیت علیہم السلام کی راہ پر چل کر اس مقام تک پہنچ سکے ہیں کہ اس سلوک کے رازوں کو جان لیں اور اس بارے میں بات کریں۔
1)انبیاء اور ائمہ علیہم السلام
’’پہلے گروہ انبیاء کرام علیہم السلام ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ان کا ماورائے مادہ کے عالَموں سے رابطہ تھا، لیکن حدیث ’’نحن معاشر الانبیاء امرنا ان نُکلِّم الناس علی قدر عُقُولِهم‘‘{۲} کے مطابق، وہ ان حقائق کو اس طرح بیان کرنے پر مجبور تھے جو عام لوگوں کی سمجھ میں آسکے۔ اس وجہ سے انہوں نے تابناک حقائق اور ان کی انتہائی چمک کا بیان کرنے سے گریز کیا۔‘‘
الٰہی انبیاء جن کا ماورائے طبیعت، غیبی اور الٰہی مسائل سے رابطہ ہے، وہ ان علومِ الٰہیہ اور لطیف و ملائم معانیِ توحید کو اُسی طرح جس طرح وہ ہیں، عام لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکتے۔ لہذا وہ مجبور ہیں کہ انہیں لوگوں کی عقل، سمجھ اور استعداد کے مطابق آسان بنا کر، سادہ زبان میں بیان کریں۔
چنانچہ علامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اور جن چیزوں کا تصور تو کیا انسان کے دل میں بھی نہیں آیا، یعنی ’’ما لا عین رأت و لا اذن سمعت و لا خطر علی قلب بشر‘‘{۳} کی حقیقت کو بیان کرنے سے انکار کر دیا اور جنت، حور و قصور وغیرہ جیسی تعبیرات استعمال کیں کیونکہ ان عالَموں کے حقائق بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘
انبیاء عام لوگوں کو اونچے عالم کے ان باریک حقائق کو نہیں بتا سکتے تھے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ حقائق نورانی ادراکات ہیں جنہیں اب تک کسی عام آنکھ نے نہیں دیکھا اور کسی عام اور مادی کان نے نہیں سنا اور دنیا میں گرفتار کسی دل و دماغ نے ان لطیف معانی کو سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے انبیاء ان عالَم بالا کے ان معانیوں کو جس طرح وہ ہیں، پردہ نہ اٹھا سکے اور لوگوں کے سامنے بیان نہ کر سکے۔
نتیجتاً وہ جنت کا ذکر کرتے تھے، یعنی یہ کہتے تھے کہ جنت ہے، حور العین اور قصر وغیرہ ہیں، کیونکہ عام لوگ ان معانی سے تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ لہٰذا خود انبیاء نے آخر میں اعتراف کیا کہ ان عالَموں کے حقائق بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں اور ہر کوئی انہیں نہیں سمجھ سکتا۔
2)عارف
علامہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’دوسرا: لوگوں کا ایک سلسلہ جو انبیاء علیہم السلام کی راہ پر چل کر، ان کی مختلف استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق، ان حقائق اور فیوضات کو حاصل کرنے کی سعادت سے نوازا گیا ہے۔ یہ لوگ بھی استعاروں اور تمثیلوں کے پردے میں بات کرتے ہیں۔‘‘
دوسرا گروہ عرفاء کا ہے جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کی راہ اختیار کی ہے اور ان حقائق سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ تاہم، انبیاء علیہم السلام کی طرح، جب یہ لوگ ان معرفتوں کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے مخاطبین کی استعداد کے مطابق بات کرتے ہیں اور استعارے اور تمثیل کے ذریعے مطالب بیان کرتے ہیں۔ یعنی وہ حسی مثالیں دے کر، پردے کے پیچھے موجود ان معنوی مضامین کو لوگوں کی سمجھ کے قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے مخاطب ان باتوں کو سمجھ سکیں۔
عرفاء کی طرف سے استعارے کا استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان عرفانی معانی کو پہنچانے کے لیے عام بول چال کے الفاظ کو بطور عارضیہ استعمال کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ چونکہ عرفاء حقائق کو ان کی اصل صورت میں بیان نہیں کر سکتے، اس لیے وہ الفاظ کو استعارے اور کنایوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ لوگ اپنی سمجھ کے مطابق اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔
فٹ نوٹ:
- لب اللباب در سیر و سلوک اولی الالباب
- محمدتقی مجلسی، روضة المتقین، ج 10، ص 192.
- یہ تعبیر احادیث کی مختلف ابواب سے لی گئی ہے، جن میں فقہی ابواب، زیارات اور دیگر متعلقہ موضوعات شامل ہیں۔ ان میں سے ایک روایت شیخ طوسی کی کتاب ’’تحذیب الاحکام‘‘ جلد 6، صفحہ 22، باب 7، میں ہے جو امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں ہے۔ یہ روایت کچھ اس طرح ہے: «عَنْ أَبِی عَامِرٍ السَّاجِی وَاعِظِ أَهْلِ الْحِجَازِ قَالَ: أَتَیتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ علیه السلام فَقُلْتُ لَهُ یا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا لِمَنْ زَارَ قَبْرَهُ یعْنِی أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینالی ان قالوَ خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ حَتَّى یرْجِعَ مِنْ زِیارَتِكُمْ كَیوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ فَأَبْشِرْ وَ بَشِّرْ أَوْلِیاءَكَ وَ مُحِبِّیكَ مِنَ النَّعِیمِ وَ قُرَّةِ الْعَینِ بِمَا لَا عَینٌ رَأَتْ وَ لَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَر».
کتاب چلچراغ سلوک سے ماخوذ ہے
شرح « لب اللباب در سیر و سلوک اولی الالباب»، پہلا حصہ: معرفتی اجمالی دربارۀ سلوک
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی