اسراف سے دوری

اسراف سے دوری

امام سجاد علیہ السلام دعائے مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں: «وَ امْنَعْنِی مِنَ السَّرَفِ؛ اے اللہ! مجھے اسراف سے بچا لیجیے

اسراف کے بارے میں ہم دو چیزوں میں بحث کرتے ہیں:

1. اسراف

2. تبذیر.

اگر ہم ان دونوں چیزوں کا موازنہ کریں تو تبذیر، اسراف سے بھی زیادہ بری ہے۔. قرآن کریم میں تبذیر کرنے والوں کو شیطانوں کا بھائی قرار دیا گیا ہے:Pإِنَّ الْمُبَذِّرِینَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّیاطِینِ ۖ وَكَانَ الشَّیطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراًO؛ یعنی تبذیر کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کے سامنے بہت ناشکرہ تھا؛۔ تبذیر اسراف سے اس لیے بری ہے کیونکہ تبذیر میں دولت کا مکمل نقصان ہوتا ہے۔؛ مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص ایک نوٹ لے کر اسے آگ لگا دے یا کھانے کو اس طریقے سے ضائع کر دے کہ وہ استعمال کے قابل نہ رہے۔تو یہ تبذیر کی مثال ہے،

اسراف، تبذیر سے ایک درجہ کم بری ہے۔،  اگر آپ کسی نعمت کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا پورا فائدہ نہیں اٹھاتے،مثال کے طور پر:

اس نعمت کے بچے ہوئے اجزاء کو پھینک دیں، تو یہ اسراف کی مثال ہے۔

انقلاب کے ابتدائی دور میں، ہمیں کچھ عرصے کے لیے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ ہم تهران کے ہوٹل( استقلال) اور ہوٹل (اوین) میں ہوٹل کے عملے اور مہمانوں کے لیے جماعت سے نماز پڑھائیں اور نماز کے بعد کچھ باتیں بھی کریں۔ کبھی کبھی ہم ہوٹل کے مختلف حصوں، بشمول کچن میں بھی جاتے تھے۔ کچن میں بہت زیادہ فضول خرچی ہو رہی تھی۔

مثلاً جب وہ غیر ملکی یا مقامی مہمانوں کے لیے کھانا لاتے تھے تو شاید آدھا کھانا بچ جاتا تھا اور استعمال نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہاں تھیلے موجود تھے جن میں وہ بچے ہوئے کھانے کو ڈال دیتے تھے اور رات جب گورنمنٹ کی صفائی کی گاڑی آتی تھی تو وہ ان تمام تھیلوں کو کوڑے کے طور پر گاڑی میں ڈال دیتے تھے، ہم نے ہوٹل کے ذمہ داروں کو بتایا کہ یہ کام درست نہیں ہے اور یہ اسراف ہے۔

وہ درست ہے کہ مہمانوں نے اس کھانے کی رقم ادا کی ہے اور وہ چلے گئے ہیں، لیکن اس کھانے کو دوسرے طریقوں سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہ تجویز پیش کی کہ یا تو یہ کھانا چڑیا گھر لے جائیں یا پھر ان غریب لوگوں کو اجازت دیں جو  اِدھر اُدھر سے آتے ہیں کہ وہ آ کر اس کھانے کا استعمال کریں۔

ایسا ہی مسئلہ گھروں میں بھی پیش آسکتا ہے؛

اس لیے ہمیں اسراف سے بچنے کی ضرورت ہے۔ تبذیر تو خیر، اسراف بھی شریعت کے خلاف اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ اسراف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

بجلی، پانی، گیس وغیرہ کی زیادہ استعمال بھی اسراف ہے اور کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی لوگ ان کی نعمتوں کے بہترین استعمال اور اسراف سے بچنے پر ان کی توجہ کے بارے میں بہت سے واقعات بیان کرتے ہیں۔

اسراف کا موضوع بہت اہم ہے اور اسی وجہ سے جو شخص امام جماعت ہے یا وہ جو تقویٰ پر مبنی عدل قائم کرنا چاہتا ہے، ایسے شخص اور لوگوں کے طریقے میں ذرہ برابر بھی اسراف نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسراف گناہِ کبیرہ ہے اور عدل کو ختم کر دیتا ہے۔

بے شک، اسراف سے بچنے کے لیے قوی ایمان کی ضرورت ہوتی ہے تا انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سامنے جوابدہ سمجھے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے زمانے میں گھروں میں دو کنویں بنائے جاتے تھے۔ ایک کنواں واش روم کے لیے اور دوسرا  کچن کے لیے۔

کچن  کا کنواں اس لیے بنایا جاتا تھا کہ چاول کا پانی، برتنوں میں بچا ہوا کھانا وغیرہ کا ٹھہراؤ والا پانی، واش روم کے کنویں کے پانی میں نہ مل جائے۔ پہلے زمانے میں لوگ اتنی عزت و احترام رکھتے تھے۔ یہی بات وضو کے پانی پر بھی صدق رکہتی ہے۔ البتہ، یہ روحانی اور طہارت کے وہ نکات ہیں جن کی طرف صاحبِ معنی اور صاحبِ دل لوگ توجہ دیتے ہیں۔

رزق کا ضائع ہونے سے بچاؤ

«‏وَ حَصِّنْ رِزْقِی مِنَ التَّلَفِ؛ اے اللہ! میری روزی کو ضائع ہونے سے بچا لیں۔آپ نے دعا میں یہ درخواست کی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی روزی کو ضائع ہونے سے بچائے۔ رزق کی تلفی کی دو صورتیں ہیں:

  • مالک کی کوتاہی کے بغیرضائع ہونا:
  • مالک کی کوتاہی سے ضائع ہونا:

کبھی کبھی مال آپ تک پہنچنے سے پہلےہی ضائع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر، شدید سردی پھلوں اور دیگر زرعی پیداوار کو باغ اور کھیت میں تباہ کر دے۔ ایسی صورت میں یہ ظاہر ہے کہ کاشتکار اور مالک نے کوئی کوتاہی نہیں کی اور یہ قدرتی آفات کی وجہ سے ہوا ہے۔

کبھی کبھی مالک اپنی ملکیت کے ضائع ہونے کا براہ راست ذمہ دار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کاشتکار یا مالک اپنے پھلوں اور زرعی اجناس کی صحیح نگہداشت نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ شریعت میں کسی بھی نعمت کو ضائع کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ بات ہم پر یہ ذمہ داری ڈالتی ہے کہ ہم ظاہری اور باطنی، اللہ کی تمام نعمتوں کی حفاظت کے لیے کوشش کریں۔

کاشتکار جو ایک سال کا اناج، جو اور دیگر اجناس ذخیرہ کرتے ہیں انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ کاکروچ،  چوہے، تھ ہر وغیرہ ان کے گودام میں داخل نہ ہو سکیں۔ کاشتکار اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر یہ جانور ان کے گودام میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ان کی دولت کو ضائع کر دیں گے۔ یہی احتیاطیں روحانی رزق کے لیے بھی ضروری ہیں۔

 

مال کے ضائع ہونے کا ایک سبب یہ ہے کہ کسان، مویشی پالنے والے، سنار وغیرہ اپنی دولت کا زکات ادا نہ کریں۔ یہی حکم ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو اپنا خمس نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے پاس خمسی سال آتا ہے، مثال کے طور پر پہلے سال جب وہ مکہ جاتے ہیں تو خمس کا حساب لگانے کے بعد، رقم کو ہاتھ لگاتے ہیں، لیکن بعد میں اس کی قسطوں کی ادائیگی نہیں کرتے، ان کا حکم بھی ان لوگوں کی طرح ہے جو خمس نہیں دیتے۔

ان لوگوں کو یہ یاد دلانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مال میں جو ایک پانچواں حصہ رکھا ہے، وہ آپ کا مال نہیں ہے۔ آپ خواہ کتنی ہی مرتبہ کہیں کہ یہ میرا مال ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تمہارا مال نہیں ہے۔ اس کا آدھا امام کا حق ہے اور دوسرا آدھا سادات کا حق ہے۔

اگر ہم حلال کو حرام کے ساتھ ملا دیں اور اس مال سے اپنے اہل و عیال کو خرچ دیں، تو اگر اسی کھانے سے نطفہ بنتا ہے، کیا یہ بچہ ہمارے ساتھ مسجد آئے گا!  ناجائز اور شبہ ناک کھانے کا اثر پڑتا ہے۔ آپ خود جانتے ہیں کہ مال، رزق اور ہر چیز کا بچوں، بیوی بچوں پر اثر پڑتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم اپنے کاموں میں محتاط رہیں اور اگر مالی صدقہ واجب ہو تو اسے ادا کرنا چاہیے۔

فٹ نوٹ:

  1. صحیفه سجادیه، دعای مکارم الاخلاق
  2. سراء (17)، آیه 27.
  3. ر.ک: خاطرات خادمان وپاسداران امام خمینی، ص 25-35.

 

کتاب اخلاق اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔

شرح «دعای مکارم الاخلاق »، فراز نمبر ۲۳: روزی میں برکت

تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی

a50f99210eac717cf84bdea3ddd2d0bd

فہرست کا خانہ