انسان کی تقدیر میں زبان کا کردار

انسان کی تقدیر میں زبان کا کردار

امام سجاد علیہ السلام دعائے مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں:

«اللَّهُمَّ وَ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى، وَ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى، وَ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِی أَزْكَى، وَ اسْتَعْمِلْنِی بِمَا هُوَ أَرْضَى؛{1}

 خدایا! مجھے اپنی ہدایت کے ساتھ بولنے کی توفیق عطا فرما، اور مجھے تقویٰ تلقین فرما، اور مجھے اس کام کی توفیق عطا فرما جو سب سے پاکیزہ ہے، اور مجھے اس کام میں لگا جو زیادہ پسندیدہ ہے۔»

 زبان ایک بہت ہی اہم عضو ہے۔ اگر ہم زبان کو کنٹرول نہ کریں تو ہم مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔

کیونکہ امام باقر علیہ السلام کے واضح بیان کے مطابق زبان تمام خیر اور شر کا معیار ہے:«إِنَّ هَذَا اللِّسَانَ مِفْتَاحُ كُلِّ خَیرٍ وَ شَرٍّ فَینْبَغِی لِلْمُؤْمِنِ أَنْ یخْتِمَ عَلَى لِسَانِهِ كَمَا یخْتِمُ عَلَى ذَهَبِهِ وَ فِضَّتِهِ‏  فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ  صل الله علیه و آله و سلم قَالَ رَحِمَ اللَّهُ مُؤْمِناً أَمْسَكَ لِسَانَهُ مِنْ كُلِّ شَرٍّ فَإِنَّ ذَلِكَ صَدَقَةٌ مِنْهُ عَلَى نَفْسِهِ‏  ثُمَّ قَالَ علیه السلام لَا یسْلَمُ‏ أَحَدٌ مِنَ‏ الذُّنُوبِ‏ حَتَّى یخْزُنَ لِسَانَهُ؛ بے شک یہ زبان ہر نیکی اور بدی کی کنجی ہے، پس یہ سزاوار ہے مؤمن کو کہ وہ اپنی زبان پر تالا لگا لے جیسا کہ وہ اپنے سونا چاندی پر تالا لگاتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس مومن پر رحمت نازل کرے جس نے اپنی زبان کو ہر برائی سے روک لیا، بلاشبہ یہ اس کا اپنے اوپر ایک صدقہ ہے۔ پھر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: کوئی شخص گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا جب تک وہ اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے۔»{2}

امام سجاد علیہ السلام سے ایک معتبر روایت میں نقل ہوا ہے کہ جسم کے تمام اعضاء زبان سے فریاد کرتے ہیں اور اس ٹکڑے گوشت سے التماس کرتے ہیں کہ وہ خاموش رہے کیونکہ ان کا یہ ایمان ہے کہ جب زبان آرام میں ہوتی ہے تو باقی اعضاء بھی آرام میں رہتے ہیں۔ جب زبان خاموش نہ ہو اور خاص طور پر اگر وہ گناہ میں مشغول ہو جائے تو دوسرے اعضاء کو بھی حرکت، فتنے اور گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔

دعائے مکارم الاخلاق کے تیرہویں فراز میں بھی زبان کے بعض گناہوں کا تجزیہ اور جائزہ لیا گیا ہے۔ جن لوگوں نے زبان کی آفات پر  تحقیق کی ہے انہوں نے زبان کے بہت سے گناہوں کو بیان کیا ہے۔{4}  ان گناہوں کی تعداد بیس سے ستر تک بتائی جاتی ہے۔

 

فٹ نوٹ:

  1. صحیفه سجادیه، دعای مکارم الاخلاق
  2. ابن شعبه حرانى، تحف العقول، ص 298.
  3. «إِنَ‏ لِسَانَ‏ ابْنِ‏ آدَمَ‏ یشْرِفُ‏ عَلَى‏ جَمِیعِ‏ جَوَارِحِهِ‏ كُلَّ صَبَاحٍ فَیقُولُ كَیفَ أَصْبَحْتُمْ فَیقُولُونَ بِخَیرٍ إِنْ تَرَكْتَنَا وَ یقُولُونَ اللَّهَ اللَّهَ فِینَا وَ ینَاشِدُونَهُ وَ یقُولُونَ إِنَّمَا نُثَابُ وَ نُعَاقَبُ بِكَ؛ انسان کی زبان، ہر روز اس کے باقی اعضاء کے پاس جاتی ہے اور پوچھتی ہے: ’’تم کیسے ہو؟‘‘ اعضاء جواب دیتے ہیں: ’’اگر تم ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دو تو ہم اچھے ہیں۔‘‘زبان کہتی ہے: ’’خدا سے ڈرو اور ہمیں تنگ نہ کرو۔‘‘اعضاء اس زبان کو قسم دے کر کہتے ہیں: ’’ہم صرف تیرے ہی ذریعے نیکی کا بدلہ پاتے ہیں اور تیرے ہی سبب سے سزا پاتے ہیں۔‘‘كلینى، كافی، ج 2، ص 115.
  4. ر.ک: فیض کاشانی، المحجة البیضاء، ج ۵، ص ۱۹۹.

 

کتاب اخلاق اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔

 شرح «دعای مکارم الاخلاق »، فراز نمبر 16: از هدایت  در گفتار تا رضایت بر عمل

تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی

716088f6c7de5d477098b0ab52c02a34

فہرست کا خانہ