دنیاوی نعمتوں کی وسعت کے ساتھ استدراج
امام سجاد علیہ السلام دعائے مکارم الاخلاق میں فرماتے ہیں: «وَ لاَ تَفْتِنِّی بِالسَّعَهِ؛ اے اللہ! مجھے مال کی وسعت کے ذریعے آزمائش میں نہ ڈالنا۔{1}
یہ دعا کا ایک بہت ہی عجیب حصہ ہے۔ کیا مال کی فراوانی، روزی میں کشادگی، بیوی بچے، مکان، کاروبار، سرمایہ اور دیگر چیزیں آزمائش، امتحان اور استدراج کا سبب بن سکتی ہیں؟ جی ہاں، ذکر کردہ چیزیں استدراج کا سبب بن سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رزق کی وسعت عطا کرتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا ہم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم اس کا خمس اور زکات ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم غریب اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے اور اپنے اہل و عيال کے لیے خرچ کرتے ہیں؟ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو وسعت دے اور وہ اپنے فرائض سے کوتاہی کرے تو اسے اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے سختی سے خبردار کیا ہے:
Pسَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَیثُ لَا یعْلَمُونَO؛ ہم انہیں آہستہ آہستہ وہاں سے پکڑیں گے جہاں سے وہ جانتے نہیں ہیں۔{2}
کچھ مرد بخیل ہوتے ہیں اور وہ بیوی بچوں اور گھر والوں کے اخراجات کے لیے بہت کم رقم خرچ کرتے ہیں۔ یہ لوگ صرف جمع کرنے اور بچانے کے بارے میں سوچتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بینک کی بچت روز بروز بڑھتی رہے۔ مثال کے طور پر، اگر اس سال ان کے پاس ایک کروڑ روپے ہیں تو اگلے سال دو کروڑ، تین کروڑ روپے ہوں۔
ان لوگوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ تم خرچ کرو، خدا پہنچائے گا۔ تم کس کے لیے ذخیرہ اور پس انداز کر رہے ہو؟ آخر کار تم یہ سب چھوڑ کر چلے جاؤ گے!
مال، صحت، عافیت اور … انسان کے لیے آزمائش اور امتحان ہیں۔ جب انسان جوان ہوتا ہے اور صحت کی نعمت سے مالا مال ہوتا ہے تو اسے نماز اور روزہ رمضان ادا کرنا چاہیے۔ اگر وہ اپنی جوانی کی طاقت اور قوت کا استعمال نہیں کرتا ہے تو اس نے اپنی جوانی ضائع کر دی ہے۔ اسی طرح، جس کے پاس بچہ یا بچے ہیں، اسے ان کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے۔
اگر والدین بچوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں اور ان کی تربیت ٹیلی ویژن، اسکول، گلی محلے کے دوستوں کے حوالے کر دیتے ہیں تو انہوں نے اپنی والدین کی ذمہ داری ادا نہیں کی اور ناشکری کی ہے۔ وہ بچے جو کم عمری میں قرآن، نہج البلاغہ وغیرہ حفظ کر لیتے ہیں، ان کے اچھے والدین ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کے لیے مناسب اور اچھی تربیت کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔
ہمارے کل نو بچے ہیں جن میں سے چار بیٹے ہیں۔
ہمارے کُل نو بچے ہیں جن میں سے چار بیٹے ہیں۔ ہمارا نواں بچہ جو تین سال اور چند ماہ کا بیٹا ہے، اس کا عبادی کاموں کی طرف بہت زیادہ رجحان اور رغبت ہے۔ بارہا ہوا ہے کہ نماز جماعت کے وقت وہ مکبر بن جاتا ہے۔
ابھی اس کی زبان پوری طرح نہیں کھلی ہے، لیکن وہ آتا ہے اور لاؤڈ اسپیکر اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور اپنے لیے کچھ کہتا ہے۔ ان کے عبادی کاموں کی طرف اس رغبت اور رجحان کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم رات کو رات کو اس سے بات کرتے ہیں اور سونے سے پہلے اس کی لوری وہی ذکر ہے جو ہم دوستوں کے ساتھ پڑھتے ہیں:«یَا هُو، یَا مَن هُو، یَا مَن لا هُو إِلّا هُو، أَنتَ الهَادِی إِلیَ الحَق، لَیسَ الهَادِی إلّا هُو.» خدا جانے یہ بچہ کتنا خوبصورت اس عربی متن کو حفظ کر کے پڑھتا ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیوں ممکن نہیں ہو سکتا؟ اگر آپ اس نهال کو بچپن سے ہی درست طریقے سے تربیت دیں گے تو یہ جوانی میں ضرور پھل دے گا۔ ہاں، اگر ہم بچپن میں توجہ نہ دیں تو جب وہ جوان اور بڑا ہو جائے گا تو کام بہت مشکل اور دشوار ہو جائے گا۔
اگر ہمارے پاس اولاد، اموال، عافیت اور سلامتی، سرمایہ، کاروبار اور تجارت کی کثرت ہو، لیکن ہم انہیں اللہ کی رضا میں صرف نہ کریں تو ہم فتنہ میں مبتلا ہو جائیں گے۔ فتنہ؛ یعنی فتنه.
یہ پیسہ ہمارے لیے فتنه بن جائے گا اور قبر کی پہلی رات عقرب اور سانپ میں بدل جائے گا۔ جو لوگ برزخ میں گئے اور واپس آئے ہیں، وہ کہتے ہیں: یہ برزخ کی تاریکیوں میں ہمارے لیے عقرب اور سانپ بن گئے تھے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس بہت سی داستانیں ہیں۔
فٹ نوٹ:
- صحیفه سجادیه، دعای مکارم الاخلاق
- اعراف (7)، آیه 182.
کتاب اخلاق اہل البیتی سے ماخوذ ہے۔
شرح «دعای مکارم الاخلاق »، فراز نمبر22: ارتباط بینیازی مالی و هدایت
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی