سالک کا برزخ میں استکمالی سفر
ہمارے خیال میں موت کے بعد اور برزخ میں استکمالی سفر ممکن ہے اور ہوتا ہے۔ {1} اللہ تعالیٰ مطلق اور بے انتہا وجود ہے اور اللہ کی طرف سفر کرنے والا سالک بے انتہائی کی طرف سفر کر رہا ہے۔
Pاِنَّا للَّهِ وَ اِنَّا اِلیهِ راجِعُونَO{2}؛ “بیشک ہم اللہ کے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹ کر جاتے ہیں”واپسی کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا اور قدرتی اور ناگزیر موت اس سفر میں رکاوٹ نہیں بنے گی؛ کیونکہ اللہ کی طرف واپسی ایک تکاملی سفر ہے اور سالک اسے جتنا بھی دنیا میں کوشش کرے گا طے کرے گا اور اس کا سلسلہ موت کے بعد تک جاری رہے گا،
تاکہ برزخ کی دنیا میں رکاوٹوں کے ختم ہونے کے ساتھ انسان کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی صورتیں حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نئی ظہورات اور تجلیات کو سمجھتی ہے۔ یہ سفر سالک کے لیے اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ آخرکار اس کا وجود الہی ذات میں فنا نہ ہو جائے۔
استکمالی سفر ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اس دنیا میں اللہ کی طرف سفر کرنے کی کوشش کی اور الہی ملاقات کی پیاس محسوس کی، نہ ان لوگوں کے لیے جنہوں نے نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: “بیشک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور ان کی قسموں کو تھوڑے سے مول لیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی اللہ ان سے بات کرے گا اور نہ ہی قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔” {3}
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے عہد اور ان کی قسموں کو تھوڑے سے مول لیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی اللہ ان سے بات کرے گا اور نہ ہی قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔اس آیت میں دو اہم نکات ہیں:
پہلا:
اللہ تعالیٰ آیت میں ذکر کیے گئے افراد کو آخرت میں پاک نہیں کرتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پاک کرتا ہے جو اس کے عہد پر قائم رہتے ہیں؛ یعنی انسان کی موت کے بعد رشد اور کمال کی بنیاد اس کے دنیاوی اعمال پر ہوتی ہے؛ تو جو لوگ دنیاوی اور نفس پرست ہوتے ہیں وہ اس سفر سے محروم رہتے ہیں اور جو لوگ معنویات اور اللہ کی طرف سفر کرنے والے ہوتے ہیں وہ برزخ میں رشد اور تکامل کی نعمت سے فائدہ اٹھائیں گے۔
دوسرا:
تزکیہ الٰہی سے کیا مراد ہے؟ یہ تزکیہ دراصل اللہ کے نیک بندوں کی مسلسل ترقی اور ان پر اللہ کی رحمت ہے جو ان کے لیے موت کے بعد اور برزخ میں ہوتی ہے۔
کچھ لوگ موت کے بعد اور برزخ میں مسلسل سفر کے بارے میں اعتراضات کرتے ہیں۔ان کے جواب میں ہم کہتے ہیں: یہ کیوں کہ مذہبی احکام میں مردوں کے لیے خیرات دینا یا فاتحہ پڑھنا اور مردوں کے لیے مغفرت طلب کرنا سفارش کیا گیا ہے؟ یہ کیا وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ورثاء کو پہلے مرنے والے کے قرض ادا کرنے چاہییں اور پھر وراثت میں قبضہ کرنا چاہیے؟
اگر یہ ان سے عذاب دور نہیں کرتا ہے یا اگر وہ اللہ کی نعمتوں میں ہیں تو انہیں مزید نعمتیں ملتی ہیں، تو اس کا کیا فائدہ؟ اگر یہ کام برزخ والوں کی کوئی گتھ نہیں کھولتے تو ان پر حکم لغو ہوگا، جبکہ اللہ، اس کا رسول اور اہل بیت علیہم السلام ہمیں لغو بات کا حکم نہیں دیتے۔
برزخ میں استکمالی سفر کی طرف اشارہ کرنے والی روایتیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جب آدمی کی اولاد مرتی ہے تو اس کے اعمال بند ہو جاتے ہیں سوائے تین چیزوں کے: جاری صدقہ، علم جو اس کے بعد لوگوں کو فائدہ پہنچائے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔”{4}
جب کوئی انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا ریکارڈ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے:
- جاری صدقہ: جاری صدقے کے فائدے موت کے بعد بھی انسان تک پہنچتے ہیں اور اس کی روحانی حالت کو بلند کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
- علم جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے: موت کے بعد بھی دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا علم اس شخص کے لیے برزخ میں اجر کمانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
- نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے: نیک اولاد کی دعا اپنے مرحوم والدین کے لیے مغفرت اور روحانی ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:مَنْ سَنَّ سُنَّة حَسَنَة فَلَهُ أَجْرُهَا وَ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا إِلَى یوْمِ اَلْقِیامَةِ مِنْ غَیرِ أَنْ ینْتَقِصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شئ {5} جس نے بھی ایک اچھی سنت کی بنیاد رکھی اسے اس کا اجر ملے گا اور جس نے اس پر عمل کیا اس کا اجر قیامت تک اسے ملے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی ہو۔
اگر کوئی شخص ایک اچھی سنت کی بنیاد رکھتا ہے اور پھر فوت ہو جاتا ہے تو اس سنت کے فوائد اور برکات اس تک برزخ میں پہنچتے ہیں اور اسے ضرور فائدہ پہنچائیں گے اور اس کے عذاب کو دور کرنے یا اس کی درجہ اور روحانی ترقی میں اضافہ کرنے کا باعث بنیں گے۔
فٹ نوٹ:
- کتاب چلچراغ سلوک شرح « لب اللباب سیراور سلوک اولی الالباب میں
- بقره(2) آیه
- آل عمران(3)، آیه 77.
- بحارالانوار، ج2 ص 22.
- مشکاة الأنوار فی غرر الأخبار، ج 1، ص 521.
برگرفته از کتاب چلچراغ سلوک
شرح « لب اللباب سیر اور سلوک اولی الالباب میں»،
دوسرا حصہ: شرح تفصیلی عوالم مقدَّم بر عالم خلوص
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی