تکبر ، برائیوں کی جڑ
اس بحث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مقصد کو صحیح طریقے سے سمجھانے کے لیے دنیا کو ایک انسان کی شکل سے تشبیہ دی ہے امام علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
«رَأْسُهَا الْكِبْرُ»؛ {1} اس کا سر تکبر ہے یعنی انسان کا مجسمہ کبر اور تکبر اور اپنے اپ کو بڑا سمجھنے سے بنایا گیا ہے۔
امام علیہ السلام کے اس فرمان سے پتہ چلتا ہے کہ تکبر اور اپنے اپ کو بڑا سمجھنے کی بیماری ایک انسان کے اخلاقی رزائل میں سے بدترین یہی ہے کیونکہ اگر بدن پر سر ہے تو ساری چیزیں ہیں اگر بدن سے سر کو الگ کر دیا جائے تو انسان زندہ ہی نہیں رہتا یعنی سب پستیوں اور اخلاقی رضائل تکبر ہی سے پیدا ہوتے ہیں لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ مجتہدین نے کبر اور تکبر کو گناہان کبیرہ میں سے قرار دیا ہے۔
کبر ،یعنی انسان اپنے نفس کو خدا کے مقابلے بڑ اسمجھے ، اپنے نفس کو بڑا کرئے اور نفسانی خواہشات پوری کرئے ۔اگرچہ کبر ایسا گناہ ہے کہ جس کی جڑیں انسان کے اندر تک پھیلی ہوئی ہیں لیکن اس کے اثرات ظاہر میں بھی نمودار ہوتے ہیں لیکن جب یہ کہا جاتا ہے کہ تکبر گناہان کبیرہ میں سے ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے وگرنہ یہ بہت سے رزائل کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔
اس نقطے پر توجہ دیجئے کہ اکثر مقامات پر جب فقہی نقطہ نظر سے کسی چیز کو گناہ قرار دیا جاتا ہے تو وہاں پر مقام عمل میں اس کام کا انجام دینا مد نظر ہوتا ہے مثال کے طور پر حسد اگرچہ انسان کے نفس کے اندر اس کی جڑیں ہیں لیکن اس وقت تک یہ شرعی اور فقہی حوالے سے گناہ شمار نہیں ہوتا جب تک یہ مقام عمل میں کسی شخص سے صادر نہیں ہو جاتا مثلا یہ پتھر اٹھاتا ہے اور شیشہ توڑدے ۔تو اب یہ شرعی لحاظ سے گناہ کہلاتا ہے لیکن اخلاقی گناہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے بنیادی طور پر ختم ہونا چاہیے شریعت میں بھی اس کی مشابہ مشابہت پائی جاتی ہے جیسے کبر کے بارے میں کہا جاتا ہے امن اللہ کے مکر میں سے ہے اسی طرح اللہ کی رحمت سے مایوسی بھی ہےاور وہ ہمیشہ اپنے اکاؤنٹ کو چیک کرتا رہتا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اس کے سرمائے میں کتنا اضافہ ہوا ہے
حرص، نامحدور رذیلت
«وَ عَيْنُهَا الْحِرْصُ»؛ اور اس مضموم دنیا کی انکھ لالچ اور حرص ہے کیونکہ جب تم اپنی انکھوں سے بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھتے ہیں تو اپ دل میں کہتے ہیں کہ اے کاش ان میں سے بعض منزلیں ہمارے لیے بھی ہوتی یا اپ کسی کے پاس بہت سے پیسے دیکھتے ہیں یا اچھی گاڑی دیکھ لیتے ہیں تو اپ یہ کہتے ہیں کہ اے کاش میرے پاس بھی ایسی گاڑی ہوتی اور اسی طرح اور بھی چیزیں ہیں اب اپ نے پھر یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ انسان کو اتنے ہی پاؤں پھیلانے چاہیے جتنی اس کی چادر ہے۔دیکھا دیکھی اچھی بات نہیں ہے لیکن چونکہ اگر انسان خود سازی نہ کرے تو لمبی لمبی ارزوؤں کا شکار ہو جاتا ہے اس وقت یہ کسی چیز پر قناعت نہیں کرے گا اگر کچھ اس کو مل جاتا ہے تو یہ مزید کی بھی خواہش کرتا ہے اور ارزو رکھتا ہے۔ اسی طرح مال پر مال اکٹھا کرنا چاہتا ہے۔بالخصوص ایسے افراد کہ جنہوں نے بینک میں پیسے رکھے ہوتے ہیں ہمیشہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے بینک بیلنس میں اضافہ ہی ہوتا رہے۔وہ ہمیشہ انہی دنیاوی چیزوں کے اندر سیر کرتا رہتا ہے اس مسئلے کی جڑ دنیاوی لالچ اور طمع ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے یعنی اگر کسی انسان کے پاس قارون کا خزانہ بھی ا جائے تو پھر بھی اس کی حد اور حدود نہیں ہے اس کا دل چاہتا ہے کہ مزید بھی اس کے پاس ہو ہاں اگر اس نے خود سازی کر لی ہے اور سیر و سلوک ال اللہ کی وادی میں تہذیب نفس کر لی ہے پھر وہ ایسا نہیں چاہتا.
طمع،یعنی شرعی اور حلال پر اکتفاء نہ کرنا
«وَ أُذُنُهَا الطَّمَعُ»؛ اور اس کے کان طمع ہے چونکہ علم اخلاق میں دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ایک لفظ حرص اور دوسرا طمع اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ علم اخلاق میں خیرس اور تمام میں کیا فرق ہے؟تو ہیر یعنی بہت دور دراز کی ارزوئیں جو بہت دور ہیں جن کی کوئی حد اور حدود نہیں ہے جبکہ تمام میں اتنی وسعت نہیں پائی جاتی ہے تمام قناعت کے مقابلے میں ہے انسان اس لحاظ سے دماغ ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے حلال اور جائز کی ہوئی چیزوں پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس وادی سے باہر قدم رکھے جیسے ہی یہ اس وادی سے ایک قدم باہر رکھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ انسان طمّاع ہے ایسا شخص کہ جس کی زندگی میں بالکل بھی مطابقت نہیں ہے ہمیشہ دولت بڑھانے کے چکروں میں رہتا ہے اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور سماج اور معاشرے کے محروم لوگوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنے مفاد کے بارے میں سوچتا ہے .
فٹ نوٹس :
- مصباح الشریعه
کتاب عرفان اهل بیتی سے ماخوذ ہے
شرح «مصباح الشريعة و مفتاح الحقيقة»،درس نمبر 32 (وصف دنیا)
تصنیف حضرت آیت الله کمیلی خراسانی